دل دہلانے والی سچی کہانی



: "مسکراتا قاتل"

شکاگو کی گلیاں سرد تھیں۔ دھندلی روشنیوں میں ایک آدمی بچوں کو غبارے بنا کر ہنسا رہا تھا۔ رنگین کپڑے، لمبی ناک، اور چہرے پر ایک بڑی، زہریلی مسکراہٹ۔
لوگ اسے "پوگو دی کلاؤن" کہتے تھے — ایک بے ضرر جوکر۔ مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ اس رنگ برنگے میک اپ کے پیچھے ایک خونخوار درندہ چھپا ہے۔

اس کا نام تھا: جان وین گیسی۔

دن میں وہ پارٹیوں میں بچوں کو ہنساتا، رات میں وہ شکار پر نکلتا۔
اکثر وہ نوعمر لڑکوں کو جھوٹے وعدوں سے ورغلاتا:
"میرے ساتھ چلو، اچھی نوکری ملے گی... تمہارا مستقبل سنور جائے گا۔"

جو نوجوان اس کے فریب میں آ جاتے، وہ کبھی واپس نہیں لوٹتے۔

گیسی کے گھر کے تہہ خانے میں ایک خفیہ کمرہ تھا۔ اندر بدبو اور خوف چھایا رہتا تھا۔ وہ لڑکوں کو جکڑ کر اذیت دیتا، پھر انہیں سفاکی سے مار ڈالتا۔
پھر لاشوں کو یا تو اسی تہہ خانے میں دبا دیتا، یا قریبی دریا میں پھینک دیتا۔

سالوں تک وہ یہ بھیانک کھیل کھیلتا رہا — اور ہر بار ایک نئی مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں کے درمیان گھومتا رہا۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بچوں کو ہنسانے والا جوکر اصل میں موت کا سوداگر ہے۔

ایک دن، 1978 میں، ایک 15 سالہ لڑکے کی گمشدگی نے پولیس کو حرکت میں لا دیا۔ تفتیش کرتے ہوئے پولیس گیسی تک پہنچی۔ اس کے گھر کی بدبو کچھ عجیب سی تھی — ایسی جیسے کوئی چیز زمین کے نیچے سڑ رہی ہو۔

جب پولیس نے کمرہ کھودنا شروع کیا، تو منظر ایسا تھا جسے دیکھ کر سخت دل افسر بھی پیچھے ہٹ گئے۔
تہہ خانے کی مٹی سے انسانی ہڈیاں، کھوپڑیاں اور جسموں کے حصے برآمد ہو رہے تھے — ایک کے بعد ایک۔

تعداد: 29 لاشیں۔
اور مزید کچھ دریا سے ملیں۔

جان وین گیسی کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب عدالت میں اس پر مقدمہ چلا، تو وہ اب بھی ہنستا رہا — جیسے یہ سب ایک کھیل ہو۔

اسے سزائے موت سنائی گئی۔
1994 میں اسے زہریلا انجیکشن دے کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ مگر آج بھی لوگ کہتے ہیں، جب شکاگو کی پرانی گلیوں میں دھند چھاتی ہے، تو ایک جوکر کی ہنسی گونجتی ہے...

اور شاید کوئی غبارہ آسمان کی طرف اڑتا دکھائی دیتا ہے۔


Post a Comment

0 Comments