: "لفظوں میں چھپی لاشیں"
مقدونیا کا وہ قصبہ نیند میں تھا، مگر موت جاگ رہی تھی۔2003 - 2008 کے درمیان، بوڑھی عورتیں ایک ایک کر کے غائب ہونے لگیں۔
ان کا قتل ایک خاص انداز میں ہوتا:
-
پہلے انہیں اغوا کیا جاتا۔
-
پھر ان پر گھناؤنا جسمانی اور نفسیاتی تشدد کیا جاتا۔
-
ان کے بالوں سے انہیں باندھا جاتا اور رسوں سے ان کا گلا گھونٹا جاتا۔
-
لاشوں کو کسی سنسان کھیت یا نالے میں بے یار و مددگار پھینک دیا جاتا۔
ہر واردات میں ایک "دستخط" تھی — رسیاں اور اذیت۔
ولادو تانیسکی ایک مشہور صحافی تھا، ہر قتل پر ایک دل دہلا دینے والی تفصیلی خبر لکھتا۔
لوگ حیران ہوتے کہ وہ اتنی باریک تفصیلات کہاں سے لاتا ہے؟
اس کی کہانیاں اتنی حقیقت سے قریب ہوتی تھیں کہ کبھی کبھی وہ مقتولین کی آخری سانسوں کو بھی لفظوں میں قید کر لیتا تھا۔
اصل میں وہ خود ہی اپنے جرائم کو رپورٹ کر رہا تھا —
ایک ایسا کھیل جس میں وہ خود قاتل بھی تھا اور تماشائی بھی۔
تانیسکی کی ذاتی زندگی ایک راز تھی۔
اس کی ماں ایک سخت گیر اور ظالم عورت تھی۔
بچپن میں وہ تانیسکی پر ظلم کرتی، اسے حقارت سے دیکھتی، مارتی اور طعنے دیتی تھی:
"تم کبھی کسی قابل نہیں بنو گے!"
تانیسکی کے دل میں عورتوں، خاص طور پر بوڑھی عورتوں کے لیے شدید نفرت اور غصہ پلنے لگا۔
جب اس کی ماں کی موت ہوئی، تو اس نے اپنے اندر کے درندے کو کھول دیا۔
وہ اپنی ماں جیسی بوڑھی عورتوں کو چنتا، انہیں اغوا کرتا، اور وہ سب کچھ کرتا جو اس نے برسوں اپنے ذہن میں جمع کر رکھا تھا۔
پولیس کو کیسے شک ہوا؟
ایک دن تانیسکی نے اپنی رپورٹ میں قتل کی ایسی تفصیل بیان کر دی جو صرف قاتل کو معلوم ہو سکتی تھی — جیسے مقتولہ کے لباس کی حالت، یا رسوں کا خاص انداز۔
پولیس نے تانیسکی کا فون ریکارڈ اور DNA ٹیسٹ کروایا۔
نتیجہ آیا —
میچ کر گیا۔ DNA
جب اسے گرفتار کیا گیا، تو وہ چپ رہا، جیسے سب کچھ پہلے سے جانتا ہو۔
مگر جیل میں کچھ ایسا ہوا جو آج تک ایک راز ہے۔
صرف ایک دن بعد، وہ اپنی جیل کی کوٹھری میں مردہ پایا گیا۔
موٹے موٹے نکات:
-
سر کو بالٹی میں ڈبو کر خودکشی۔
-
کوئی چیخ نہیں، کوئی مزاحمت نہیں۔
-
ایسا لگا جیسے وہ اپنی سزا سے پہلے ہی اپنا فیصلہ خود لکھ چکا تھا۔
آخری سوال جو آج تک لوگوں کو ستاتا ہے:
کیا واقعی اس نے خودکشی کی؟
یا کہیں وہ مزید خوفناک سچائیوں کو چھپانے کے لیے مارا گیا؟
کہتے ہیں، جب مقدونیا میں ہوا چلتی ہے اور کوئی بوڑھی عورت اکیلی دکھائی دیتی ہے، تو کچھ لوگ آج بھی کہتے ہیں:
"لفظوں کا قاتل ابھی مرا نہیں... بس روپ بدل چکا ہے۔"
0 Comments