"اندھیروں کا راجہ"
کہتے ہیں اقتدار انسان کو بدل دیتا ہے۔ مگر یحییٰ خان کے لیے اقتدار نشہ بن گیا تھا۔ 1969 میں جب اس نے پاکستان کی صدارت سنبھالی، تو لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید یہ سپاہی ملک کو بچا لے۔ مگر جلد ہی ایک اور کہانی جنم لینے لگی — ایک ایسی کہانی جو ایوانِ اقتدار کے بند کمروں میں سرگوشیوں کی صورت پھلنے پھولنے لگی۔
یحییٰ خان کا دن فوجی وردی میں حکم چلانے سے شروع ہوتا، اور رات شراب، رقص اور رنگین محفلوں میں ڈوب جاتی۔ ایوانِ صدر اکثر رات گئے جگمگاتا رہتا۔ ناچتی گاتی محفلیں، قہقہے، شراب کے جام، اور رنگ برنگے چہرے — یہ سب اس کی "ایلیٹ" زندگی کا حصہ تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مشہور رقاصائیں اور اداکارائیں خفیہ راستوں سے ایوانِ صدر لائی جاتی تھیں۔ یحییٰ خان کا سب سے زیادہ چرچا اس کی مشہور زمانہ دوستی آغا شیرین اور اداکارہ جنرل رانی سے تھا، جسے لوگ "طاقتور ترین عورت" بھی کہتے تھے۔ وہ ایک درپردہ حکمران سمجھی جاتی تھی، جو فیصلوں پر اثر انداز ہوتی تھی۔
لیکن حقیقت کا پردہ کب تک سلامت رہتا؟
ایک رات، جب ایوانِ صدر میں پھر ایک پرتعیش محفل سجی تھی، اچانک فون کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی۔ سپاہیوں کے چہرے فق ہو گئے۔ خبر آئی کہ مشرقی پاکستان میں بغاوت اپنے عروج پر ہے۔ یحییٰ خان، جو شراب کے نشے میں جھوم رہا تھا، نے بے دلی سے فون سنا اور پھر ایک قہقہہ لگا کر کہا:
"انھیں دیکھ لیں گے صبح۔۔۔"
مگر وہ "صبح" کبھی نہیں آئی۔ مشرقی پاکستان جل اٹھا۔ سارا ملک حیرت میں تھا کہ اس بحران میں سربراہِ مملکت کہاں غائب ہے؟
چند ماہ بعد، جب پاکستان دولخت ہو گیا، تو ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا:
"کیا ہم ایک عیاش بادشاہ کے ہاتھوں لٹ گئے؟"
یحییٰ خان کو معزول کر دیا گیا۔ ایوانِ صدر کی خالی راہداریوں میں اب صرف خاموشی گونجتی تھی۔
کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ آخری دنوں میں یحییٰ خان تنہائی میں اکثر بڑبڑاتا تھا:
"اگر وہ رات میں محفل نہ سجاتا... اگر میں جاگ جاتا..."
مگر افسوس، تاریخ موقع کم ہی دیتی ہے۔
0 Comments